Untouchable style of arrest of the culprit ❣️

 مجرم کی گرفتاری کا اچھوتا انداز ___!!❣️🎊



علامی ابن جوزی اپنی معروف تالیف"کتاب الاذکیاء" میں لکھتے ہیں۔


مجھے اطلاع پہنچی کہ ایک آدمی خراسان سے بغداد آیا۔وہ حج کے لیے مکہ جا رہا تھا۔ اس کے پاس تقریباً ہزار دینار کی قیمت کے مساوی موتیوں کا ہار تھا۔اس نے ہار فروخت کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔

چنانچہ وہ ایک عطر فروش کے پاس پہنچا۔

اس کی شہرت اچھی تھی۔اس کے پاس اپنا موتیوں کا ہار امانت رکھ دیا اور حج کے لیے روانہ ہو گیا۔


حج سے واپس آیا تو اس نے عطر فروش کے لیے تحفے تحائف خریدے اور اس کی خدمت میں پہنچ کر پیش کیے اور اپنے ہار کا تقاضا کیا۔ عطار کہنے لگا تو کون ہے اور کہا سے آیا ہے؟

خراسانی حاجی کہنے لگا میں اس ہار کا مالک ہوں جسے "میں نے ( حج پر جاتے ہوئے)آپ کے پاس بطور امانت رکھا تھا"۔


عطار نے حاجی کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔اسے بری طرح دھکے مار کر دکان سے نکال دیا اور کہنے لگا: تو مجھ پر بہتان تراشی کر رہا ہے۔


خراسانی نے شور مچایا۔ان کا جھگڑا دیکھ کر لوگ جمح ہو گئے۔ حاضریں حاجی سے کہنے لگے: تم عطار کے بارے میں یہ کیسی غلط سلط باتیں کر رہے ہو۔ یہ تو علاقے کا نہایت اچھا اور مشہور آدمی ہے۔ بھلا یہ تمھارے ساتھ ایسا دھوکا کیسے کر سکتا ہے؟


لوگوں کی زبانی عطار کے بارے میں یہ کلمات سن کر حاجی کو حیرت ہوئی۔ وہ اب بھی رہ رہ کر عطار سے اپنی امانت کا تقاضا کر رہا تھا مگر عطار اسے مسلسل گالیاں دیے جا رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے حاجی کو مشورہ دیا اگر تم اس جھگڑے کا حل چاہتے ہو توخلیفۃالمسلمین عضد الدولہ(1) کے دربار میں چلے جاؤ۔ اپنا مقدمہ پیش کرو اور ان سے مدد طلب کرو،عین ممکن ہے تمھاری پریشانی کا کوئی حل نکل آئے۔


حاجی نے لوگون کے مشورے کے مطابق اپنی پوری داستان ایک کاغذ پر لکھ لی اور اسے ایک لمبی لکڑی پر لٹکا کر عضد الدولہ کے دربار جا پہنچا۔ اسے دیکھتے ہی عضد الدولہ نے قریب بلوایا اور پوچھا تمھارا کیا مسئلہ ہے؟


حاجی نے درخواست پیش کی اور زبانی طور پر بھی پوری داستان سنا دی۔

عضد الدولہ نے حاجی سے کہا:۔

"کوئی بات نہیں ، تم کل عطار کی دکان کے پاس جا کر بیٹھ جانا، اگر عطار تمھیں اپنی دکان کے پاس بیٹھنے سے روکے تب بھی اس سے کوئی احتجاج یا جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں، ایسی صورت میں سامنے کی کسی دکان کے پاس جا بیٹھنا۔صبح سے مغرب تک چپ چاپ بیٹھے رہنا۔اس سلسلے میں کسی سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔


تین دن تک اسی طرح کرنا،جس طرح میں تمھیں بتا رہا ہوں۔چوتھے روز میرا وہاں سے گزر ہوگا تو میں تمھارے پاس چند لمحے کھڑا ہوں گا اور تمھیں سلام کروں گا۔اس موقع پر تم اپنی جگہ سے کھڑا نہ ہونا، نہ ہی میرے سلام کے جواب سے زیادہ کوئی بات کرنا۔ جب میں وہاں سے گزر جاؤں گا تو عطار کے پاس جانا اور اپنے ہار کا تقاضا کرنا۔ اب کی بار وہ تم سے جو کچھ بھی کیے، مجھے آکر بنانا۔اگر وہ ہار واپس کردے تب بھی میرے پاس آنا اور مجھے مطلع کرنا"۔


اگلے روز خراسانی عطار کی دکان کے پاس جا کر بیٹھ گیا کسی سے کوئی بات نہ کی۔خلیفہ کی ہدایت کے مطابق وہ متواتر تین دن بیٹھا رہا،چوتھے دن عضد الدولہ اپنی عظیم الشان سواری پر لاؤ لشکر کے ساتھ وہاں سے گزرا تو خراسانی کو دیکھا تو سواری روک لی اور پکار کر کہا: خراسانی بھائی!۔ السلام وعلیکمَ۔

خراسانی بدستور بیٹھا رہا اور صرف" وعلیکم السلام" کہہ کر چُپ ہوگیا۔

عضد الدولہ نے کہا:۔

خراسانی بھائی! آپ آخر ہمارے پاس کیوں نہیں آتے اور اپنی ضرویات کیوں نہیں بتاتے؟


عضد الدولہ نے انتہائی اصرار کے ساتھ اس سے اس کی ضروریات پوچھیں مگر اس نے کوئی بات نہ کی۔اس دوران عضد الدولہ کا پورا لشکر بھی وہاں کھڑا رہا ۔ادھر عطار کی حالت خراب ہوگئی، مارے دہشت کے اس پر غشی طاری ہونے لگی۔عضد الدولہ وہاں سے چلا گیا تو عطار فوراً حاجی کے قریب آیا اور کہنے لگا:۔


۔" تیرا ناس ہو! تو نے اپنا ہار میرے پاس کب اور کس چیز میں بطور امانت رکھا تھا، ذرا اس کی نشاندہی تو بتاؤ ، شاید مجھے یاد آ جائے"۔


حاجی نے اسے نشانیاں بتائیں، وہ تھیلی اس شکل کی تھی اور رنگ ایسا تھا۔عطار دکان کے اندر گیا اور اس کا ہار لا کر دیتے ہوئے کہنے لگا:اگر تو مجھے نشانیاں نہ بتاتا تو شاید مجھے یہ ہار نہیں مل سکتا تھا۔

حاجی نے ہار لے لیا اور اپنے دل میں کہنے لگا: بھلا اب مجھے عضد الدولہ کے دربار میں حاضر ہونے کا کیا فائدہ؟ مجھے تو میرا ہار تو مل ہی گیا ہے، پھر خیال آیا کہ خلیفہ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں ہار ملنے کے بعد اس سے ضرور ملوں، ہوسکتا ہے کہ اسے مجھ سے کوئی کام ہو یا وہ مجھ سے ہار خریدلے،چنانچہ وہ ہار لے کر عضد الدولہ کے دربار میں حاضر ہوا۔


عضد الدولہ نے خراسانی کو دیکھا تو ایک سپاہی کو حکم دیا کہ اس عطار کوگرفتار کر کے فوراً دربار میں پیش کرو۔ تھوڑی دیر بعد عطار وہاں موجود تھا۔خلیفہ نے حکم دیا کہ اس بدبخت نے خیانت کی ہے. اس کی سزا یہ ہے کہ ہار اس کے گلے میں ڈال دیا جائے، پھر اس دکان کے سامنے اسے پھانسی دی جائے تاکہ یہ عبرت کا نشان بن جائے،چنانچہ خراسانی سے ہار لے کر اسے عطار کی گردن میں ڈالا گیا اور اسے سرِبازار پھانسی دے دی گئی۔ اور پھر یہ اعلان کیا گیا۔...!

"امانت رکھ کر مُکر جانے والے کی یہی سزا ہے"


غروب، آفتاب کے بعد دربان نے عطار کی گردن سے نکال کے خراسانی حاجی کے حوالے کر دیا گیا اور کہا: اب تم باطمینان اپنے گھر جاسکتے ہو۔ ۔ ۔ 

--------------------------------------------

عضد الدولہ(1)۔ان کا نام فَنَّا خسرو بن حسن ہے۔اس کا لقب عضد الدولہ ہے۔ اس کی ولادت324 ہجری میں اور وفات بغداد میں372 ہجری میں ہوئی۔ سلطنتِ عباسیہ کے عہد میں عراق پر قبضہ کر نے والوں میں اس کا بھی نام بھی آتا ہے۔وہ ایران۔موصل اور پھربلادِجزیرہ کا حکم رہا۔یہی وہ پہلا شخص ہے جسے اسلامی تاریخ میں شہنشاہ کا لقب ملا۔یہ بڑے رعب ودبدبے والا حکمران تھا۔تعمیراتی کاموں کا بڑا شوقین تھا۔ اس نے اپنے نام سے ایک بڑا ہسپتال بنوایا تھا۔ بڑی بڑی بلڈنگیں اور پل تعمیر کرائے تھے اور مدینہ منورہ کے اردگرد ایک مضبوط دیوار بھی چنوائی تھی.


دیکھیے:الاعلام156/5،والکامل فی التاریخ لابن الاثیر،وسیراعلام النبلاء،تاریخ ابنِ خلکان، البدایۃ والنھایۃ)۔


یہ واقعہ ابنِ جوزی کی کتاب الاذکیاء 90،89 سے معمولی تصرف کے ساتھ درج کیا گیا۔

(کتاب سنہرے نقوش،از عبدالمالک مجاھد)

Comments

Emotions
Copy and paste emojis inside comment box
Menu